Tuesday 30 October 2018

امام موسی کاظم ع اور ہارون رشید کی قبر نبوی ع پر حاضری ⚘

⚘امام موسی کاظم ع اور ہارون رشید کی قبر نبوی ع پر حاضری ⚘

ہارون رشید حج کے لئے آیا تو رسول اللہ ع کی قبر اطہر پر حاضر ہوا ، اس کے ساتھ امام موسی الکاظم ع بھی تھے ۔ ہارون رشید نے اپنے اردگرد موجود لوگوں پر فخر کرتے ہوئے عرض کیا : اے اللہ کے رسول اے چچا کے بیٹے آپ پر سلام تو امام موسی بن جعفر الکاظم ع نے قریب ہو کر عرض اے میرے باپ آپ پر سلام ، تو ہارون رشید کا چہرہ متغیر ہوگیا اور کہا : اے ابوالحسن ع ! یہ فخر کرنا حق اور بجا ہے ۔

سیراعلام النبلاء ۔ ج 2۔ ص 261 ۔ طبع بیروت

انتخاب و ترجمہ : سید حسنی الحلبی


حجاج بن یوسف کی شان میں غلو

حجاج بن یوسف کی شان میں غلو 

ملاحظہ فرمائیں : مصر کے ایک صاحب نے پی ایچ ڈی کا مقاملہ حجاج بن یوسف ظالم کی شان میں لکھا اور اس کو شائع بھی کیا ، حتی کہ اس کے سات ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ اس کتاب میں حجاج ظالم کو رحمہ اللہ لکھا گیا اور اس کا دفاع کیا گیا ہے ۔ 

اس کے برعکس علامہ ذہبی حجاج بن یوسف کے متعلق لکھتے ہیں : 

حجاج بن یوسف ظالم جبار (اور) ناصبی خبیث تھا۔ 

سیر اعلام النبلاء ۔ ج 1 ۔ ص 1272 ۔ طبع بیروت 

سید حسنی الحلبی




Sunday 28 October 2018

مولا علی ع کا اھل شام کے ساتھ جنگ کرنے پر موقف : علامہ ابن ابی عز الدمشقی کے قلم سے

مولا علی ع کا اھل شام کے ساتھ جنگ کرنے پر موقف : علامہ ابن ابی عز الدمشقی کے قلم سے 

علی ع برحق خلیفہ تھے وہ سمجھتے کہ ان کی اطاعت واجب ہے نیز ان کے خلاف بغاوت کو فرو ہونا چاہیئے اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہونا چاہیئے جب انتشار ختم نہ ہوسکا تو انھوں نے اھل شام کے ساتھ لڑائی کا اعلان فرمایا جو ان اطاعت سے سرتابی کر رہے تھے اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر رہے تھے اب حالات کا رخ دیکھ کر وہ تالیف قلبی کی حکمت کے پیش نظر ایسے لوگوں سے کچھ مروت و ہمدردی کے قائل نہ تھے جس طرح کہ عہدی نبوی اور آپ کے بعد آنے والے خلفاء کے عہد خلافت میں تالیف قلبی کا رحجان غالب رہا اور مسلمانوں کی اجتماعیت کے خلاف بپا ہونے والی شورشوں کو نرمی کے ساتھ فرو کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ، حضرت علی ع نے حالات کا گہرے غورو فکر کے ساتھ جائزہ لیا اور اس نیتجے پر پہنچے کہ بغاوت کرنے والوں سے ہزگز نرمی کا برتائو نہ کیا جائے ، ان سے لڑائی کی جائے ، ان پر اسلامی حدود کا نفاذ کیا جائے ۔

شرح عقیدہ طحاویہ ۔ ص 734 ۔ طبع بیروت 

انتخاب و ترجمہ : سید حسنی الحلبی




Saturday 20 October 2018

*** فضائل امام علی ع بیان کرنے میں ، امام اھل سنت امام نسائی رح کی شہادت ***



*** فضائل امام علی ع بیان کرنے میں ، امام اھل سنت امام نسائی رح کی شہادت  *** 

علماء کرام نے لکھا ہے کہ وزیر ابن حنزابہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام نسائی رح کے شاگرد محمد بن موسی ٰ المامونی سے سنا : انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ایک قوم کو ابوعبدالرحمان نسائی رح پر اعتراض کرتے ہوئے پایا کہ انہوں نے امام علی ع کے خصائص پر کتاب تو لکھ دی ہے اور شیخین کے فضائل ترک کر دئیے ہیں ۔ میں نے یہ اعتراض امام نسائی رح کو ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا : دراصل بات یہ ہے کہ میں دمشق گیا ، تو وہاں کے لوگوں کو امام علی ع سے منحرف پایا ، اس لئے میں نے کتاب "خصائص علی " تصنیف کی ، تاکہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے انہیں ہدایت عطا فرمائے ۔ مامونی کہتے ہیں : پھر اس کے بعد امام نسائی رح نے فضائل صحابہ پر کتاب لکھی اور لوگوں کو سنائی تو لوگوں نے کہا : آپ نے فضائل معاویہ کیوں نہین لکھے ؟ آپ نے فرمایا : میں کیا لکھتا ؟ یہی " اے اللہ ! معاویہ کا پیٹ نہ بھرنا ؟ اس پر معترض خاموش ہوگیا ۔ 

سیر اعلام النبلاء // ذہبی // ج 11 //ص 197

حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : 

امام نسائی رح دمشق تشریف لے گئے تو اھل دمشق نے ان سے مطالبہ کیا کہ انہیں معاویہ کے فضائل میں کچھ احادیث پیش کریں ۔ اس پر امام نسائی رح نے فرمایا : " کیا معاویہ کو کافی نہیں کہ وہ برابر سرابر چلے جائیں چہ جائیکہ ان کے فضائل مروی ہوں " 

اس پر انہوں نے آپ کے خصیتین میں مارنا شروع کر دیا اور مارتے مارتے مسجد سے باھر نکال دیا ، آپ نے فرمایا : مجھے مکہ المکرمہ پہنچایا جائے ، چنانچہ اسی سال 303 ھجری میں آپ مقتولا شھید ہوئے 

امام حاکم رح نے خوب فرمایا تھا : امام نسائی رح دوسرے فضائل کے ساتھ ساتھ اپنی آخری عمر میں شہادت کی فضیلت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے ۔

البدایہ و النھایہ // ابن کثیر // ج 12 // ص 11

اللہ عزوجل ، امام نسائی رح کو اجر عطا فرمائے جو حب علی ع میں شھید ہوئے اور آج ان کی تصنیف "خصائص علی ع " دنیا میں مختلف زبانوں میں حب علی ع کی خوشبو کو پھیلا رہی ہے ۔ 

تحقیق : السید حسنی




رسول اللہ ع کی وصیت ، جس کو ہم نے بھلا دیا ۔

رسول اللہ ع کی وصیت ، جس کو ہم نے بھلا دیا ۔

حدیث غدیر اور حدیث ثقلین 

جس کا میں(رسول ) مولا ،اس کا علی مولا

امام علی (ع) سے روایت ہے کہ بے شک نبی (ص) (مقام ) خُم میں ایک درخت کے پاس آئے پھر آپ (ص) علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر باھر تشریف لے آئے ،فرمایا : کیا تم اس کی  گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تعالی ٰ تمھارا رب ہے ? لوگوں نے کہا: جی ہاں! گواہی دیتے ہیں .آپ (ص) نے فرمایا : کیا تم اس کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ اور اس کو رسول تمھار ے نفسوں پر اولیت رکھتے ہیں اور تم اللہ اور اس کے رسول کو اپنے اولیاء سمجھتے ہو? تو لوگوں نے کہا: جی ہاں ! آپ  (ص) نے فرمایا : پس جس کا اللہ اور اس کا رسول مولا ہیں تو یہ (علی بھی) اس کے مولیٰ ہیں ،اور میں تمھارے درمیان وہ (چیز) چھوڑ کر جارہا ہوں ، اگر تم نے اسے پکڑا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے: اللہ تعالی ٰکی کتاب ،جس کا ایک سرا اُس کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمھارے ہاتھوں میں ہے ، اور (دوسرے) میرے اھل بیت

(المطالب العالیہ ، ج 16،ص 142،حدیث:3943)

(مشکل الاآثار، ج 5 ، ص 13،حدیث:1760)

ابن حجر نے المطالب العالیہ میں حدیث غدیر کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں

المطالب العالیہ کے محقق نے روایت کی سند کو حسن درجہ کی قرار دیا ہے ۔ 

مشکل الاآثار کے  محقق شعیب الارنوووط  نے  حاشیہ میں اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے

اھل حدیث کے عالم حافظ زبیر علی زئی نے اس حدیث کی سند کو حسن لذاتہ قرار دیا ہے 

(ماھنامہ الحدیث : شمارہ اپریل 2010)

کتبہ : سید حسنی الحلبی 
3 صفر 1440 ھجری یوم الجمعہ 
حرم مدنی ۔ مسجد نبوی شریف




🔴حدیث سیدنا عمار رض اور علامہ ابن تیمیہ کی تصریح 🔴



🔴حدیث سیدنا عمار رض اور علامہ ابن تیمیہ کی تصریح 🔴

علامہ تقی الدین احمد بن تیمیہ الحنبلی حدیث تقتل عماراً الفئة الباغية نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

اور یہ حدیث بھی حضرت علی ع کی امامت کی صحت پر اور آپ کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے اور بیشک آپ کی طرف بلانے والا جنت کی طرف بلانے والا تھا اور آپ کے خلاف جنگ کی طرف بلانے والا آگ کی طرف بلانے والا تھا ،اگرچہ وہ تاویل سے کام لے رہا تھا اور یہ حدیث دلیل ہے کہ حضرت علی ع کو جنگ کرنا جائز نہیں تھا اسی بنا پر آپ کے خلاف جنگ کرنے والا خطا کار ٹھرا ، اگرچہ وہ تاویل کرنے والا تھا یا بلا تاویل باغی تھا ، اور یہ دوسرا قول ہمارے اصحاب حنابلہ کے نزدیک صحیح ترین قول ہے ، یعنی حضرت علی ع کے خلاف جنگ کرنے والے کو خطا کار قرار دینے کا حکم ، اور یہی آئمہ فقہاء کا مذہب ہے ۔ انہوں نے اسی تاویل کرنے والے باغیوں کے خلاف جنگ کی بنیاد رکھی ہے ۔ 

لیکن امام یحیی بن معین نے مولا علی ع کی سیرت سے تاویلی باغیوں کے خلاف جنگ کی دلیل لینے پر امام شافعی پر اعتراض کیا اور کہا : کیا حضرت طلحہ اور زبیر کو باغی قرار دیا جائیگا ؟ امام احمد نے ان کی تردید میں ارشاد فرمایا : تم پر افسوس ہے بھلا اور کونسی چیز ہے جس کی یہاں گنجائش ہو ؟ یعنی اگر امام شافعی حضرت علی ع کی سیرت کی پیروی نہ کرتے تو ان کے پاس خلفاء راشدین میں سے کوئی اور نمونہ نہیں تھا۔ 

مجموعہ الفتاوی ۔ ج 1 ۔ ص 730 ۔ طبع مصر 

پیش کش : 

📚مكتبة الامام سيدنا حسن المثنى ( ع)📗

✏اشراف : سید حسنی الحلبی




🔹️مروان کا امام زین العابدین ع سے مکالمہ 🔹️

مروان بن حکم نے امام زین العابدین [ع]سے کہا کہ پوری قوم میں ھمارے ساتھی ( عثمان ) کا دفاع کرنیوالا تمہارے ساتھی (علی) سے زیادہ کوئی نہی تھا امام نے فرمایا کہ تم لوگ پھر کیوں بر سر منبر علی [ع] پر سب کرتے ہو؟ مروان نے کہا کہ اس [سب] کے بغیر حکومت قائم نہی رہ سکتی۔

حکم سند : اس روایت کو ابن ابی خیثمہ نے قوی سند کیساتھ روایت کیا ھے ۔

سیر اعلام النبلاء//جلد1//صفحہ569


علامہ ابن تیمیہ اور فضائل معاویہ بن ابی سفیان ❎

❎علامہ ابن تیمیہ اور فضائل معاویہ بن ابی سفیان ❎


ہاں معاویہ کے ساتھ مروانیہ وغیرہ کا ایک بڑا گروہ ہے وہ لوگ جنہوں نے ان کے ساتھ مل کر لڑائی کی یا ان کے بعد جو ان کے متبعین ہوئے ، وہ کہتے ہیں کہ معاویہ ، علی ع کے ساتھ لڑائی کے معاملہ میں حق پر تھے اور معاویہ مجتھد و مصیب تھے اور علی ع بمع اپنے ساتھیوں کے ظالم تھے یا خطائے اجتھادی میں مبتلا تھے ، اور اس سلسلے میں معاویہ کے لئے بہت سی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جیسے کتاب المروانیہ جس کے مصنف جاحظ ہیں اور ایک گروہ نے معاویہ کے فضائل میں من گھڑت روایات اور احادیث رسول اللہ ع سے روایت کی ہیں لیکن وہ سب کی سب جھوٹ ہیں اور اس سلسلے میں ان لمبے چوڑے دلائل ہیں یہاں جن کے ذکر کا موقع نہیں لیکن یہ لوگ اس بارے میں اھل سنت کے نزدیک خطا پر ہیں ۔ 



منھاج السنہ ، ج 3، ص 85 طبع سعودیہ عرب 



انتخاب و ترجمہ : ✏سید حسنی الحلبی




امام جعفر صادق ع کا امام سیدنا زید بن علی ع کا مقام و مرتبہ بیان فرمانا ⚘


⚘امام جعفر صادق ع کا امام سیدنا زید بن علی ع کا مقام و مرتبہ بیان فرمانا ⚘

عمرو بن قاسم بیان کرتا ہے کہ میں امام جعفر صادق کے پاس گیا ، اس وقت ان کے پاس روافض میں سے کچھ لوگ موجود تھے ۔ میں نے امام صادق ع سے کہا کہ یہ روافض آپ کے چچا زید سے تبراء کرتے ہیں ۔ پس امام جعفر صادق ع نے فرمایا :
جو میرے چچا زید سے برات کرتا ہے ، اللہ کی اس سے برات ہو ۔ اللہ رب العزت کی قسم ! امام زید ہم میں سب سے زیادہ قرآن کو پڑھنے والے ، اللہ کے دین کی ہم میں سب سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے اور ہم میں سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے تھے ، اللہ کی قسم ! دنیا اور اخرت میں اب ہم میں ان کی مثل کوئی بھی موجود نہیں ۔
سیر اعلام النبلاء ۔ ج 2 ۔ ص 107 ۔ طبع بیروت
تھذیب الکمال ، ج 10 ، ص 97

انتخاب و ترجمہ : 🌷خادم آئمہ سادات بنی حسنین ع 🌷
✏سید حسنی الحلبی



امام حاکم رح کے مصائب اور فضائل معاویہ⚫

⚫امام حاکم رح کے مصائب اور فضائل معاویہ ⚫

ابن طاھر کہتے ہیں : امام حاکم رح معاویہ سے روگردان اور منحرف تھے اور معاویہ اور اس کے خاندان کی توہین کرنے میں غلو کرتے تھے اور کبھی بھی اس بات سے پشیمان نہیں ہوئے تھے ۔ 



ابو عبدالرحمان سلمی بیان کرتے ہیں : میں ابوعبداللہ الحاکم کے پاس گیا جبکہ وہ ابوعبداللہ بن کرام کے پیروکاروں کے مظالم کی وجہ سے اپنے گھر میں محصور ہو کر رہ گئے تھے ، ان کا مسجد کی طرف نکلنا ممکن نہیں تھا ۔ 




اور یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے ان کا منبر توڑ دیا تھا اور باھر نکلنے سے منع کر دیا تھا ۔ میں نے امام حاکم سے عرض کیا : اگر آپ اس شخص یعنی معاویہ کے فضائل میں کچھ روایت کردیں اور املاء کروادیں تو آپ اس مصیبت سے نجات پاجائیں گے ۔ انہوں نے فرمایا : میرا دل نہیں مانتا ، میرا دل نہیں مانتا ۔   




سیر اعلام النبلاء ۔ ج 3، ص 1144 طبع بیروت 




انتخاب و ترجمہ : ✏سید حسنی الحلبی



الحافظ المحدث المؤرخ العلامة بدر الدين العيني اور معاویہ بن ابی سفیان کا اجتہاد

الحافظ المحدث المؤرخ العلامة بدر الدين العيني اور معاویہ بن ابی سفیان کا اجتہاد
--------------------------------------------
علامہ عینی رح اپنی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں ، 



علامہ کرمانی نے کہا کہ کہ حضرت علی علیہ السلام  اور معاویہ  دونوں مجتہد تھے زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ معاویہ  کو اجتہاد میں خطاء لاحق ہوئی اس کو ایک اجر ملے گا اور حضرت علی علیہ السلام کو دو اجر ملیں گے، میں ( عینی) کہتا ہوں کہ معاویہ  کی خطاء کو اجتہادی خطاء کیسے کہا جائے گا اور اس کے اجتہاد پر کیا دلیل ہے حالانکہ اس کو یہ حدیث پہنچ چکی تھی کہ جس میں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے یہ فرمایا ہے افسول ابن سمیہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی اور ابن سمیہ عمار ابن یاسر رضي الله عنه ہیں اور سیدنا عمار رض کو معاویہ کے گروہ نے قتل کیا کیا معاویہ برابر سرابر ہونے پر راضی نہیں ہیں کہ اس کو ایک اجر مل جائے !




عمدة القاري شرح صحيح البخاري ، ج ٢٤ ، كتاب الفتن ، باب١٠،حديث ٣٥/٧٠٨٣،باب : باب إذا التقى المسلمان بسيفيهما ، ص ٢٨٦،طبع بيروت ٢٠٠١




كتبة: سید حسنی الحلبی 

حرم مدنی ۔ مسجد نبوی شریف



Friday 19 October 2018

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جنگوں پر ایک مختصر مگر جامع تبصرہ

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جنگوں پر ایک مختصر مگر جامع تبصرہ



معروف اہلِ حدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں




وأما الكلام فيمن حارب عليا كرم الله وجهه فلا شك ولا شبهة أن الحق بيده في جميع مواطنه أما طلحة والزبير ومن معهم فلأنهم قد كانوا بايعوه فنكثوا بيعته بغيا عليه وخرجوا في جيوش من المسلمين فوجب عليه قتالهم وأما قتاله للخوارج فلا ريب في ذلك والأحاديث المتواترة قد دلت على أنه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية وأما أهل صفين فبغيهم ظاهر لو لم يكن في ذلك إلا قوله صلى الله عليه وسلم لعمار: "تقتلك الفئة الباغية" لكان ذلك مفيدا للمطلوب ثم ليس معاوية ممن يصلح لمعارضة علي ولكنه أراد طلب الرياسة والدنيا بين قوم أغتام لا يعرفون معروفا ولا ينكرون منكرا فخادعهم بأنه طلب بدم عثمان۔




جہاں تک بات ہے ان کی جو علی كرم الله وجهه سے لڑے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ تمام مواقع پر حق حضرت علیؑ کے ہاتھ میں تھا۔ جہاں تک بات ہے طلحہ ،زبير اور وہ جو ان کے ساتھ تھے، انھوں نے بیعت کی علیؑ کی، اور پھربغاوت کرتے ہوئے اسے توڑ دیا اور مسلمانوں میں سے ایک فوج لے کر آئے، لازم تھا کہ ان سے لڑا جاتا۔اور جہاں تک ان جنگوں کا حال ہے جو خوارج سے لڑی گئیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پر متواتر روایات ھیں کہ وہ دین سے خارج تھے جیسے کہ تیر کمان سے نکل جائے۔ اور جہاں تک صفین کے لوگوں کا حال ہے، تو ان کا باغی ہونا ظاہر تھا اگر اس بارے میں اس حدیث کہ ائے عمار تجھے باغی گروہ قتل کرئے گا، کے علاوہ کچھ اور نہ بھی ہوتا تو تب بھی اہلِ شام کی بغاوت ثابت ہوجاتی۔ اور معاویہ علیؑ سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا۔




الكتاب: الروضة الندية شرح الدرر البهية

المؤلف: أبو الطيب محمد صديق خان بن حسن بن علي ابن لطف الله الحسيني البخاري القِنَّوجي (المتوفى: 1307هـ)
الناشر: دار ابن حزم ، ص 781



انتخاب : سید حسنی الحلبی





وہ نامراد ہے جو سیدنا علی ع کو اپنا مولا نہ مانے

✅وہ نامراد ہے جو سیدنا علی ع کو اپنا مولا نہ مانے ✅



امام ذہبی لکھتے ہیں کہ




امام نفطویہ نے فرمایا کہ امام اسماعیل القاضی ، محمد بن عبداللہ بن طاھر کے کاتب تھے ، انہوں نے کہ مجھ سے محمد نے حدیث شریف : انت مني بمنزلة هارون من موسي اور حدیث : من كنت مولاه کے متعلق دریافت کیا تو میں نے کہا : پہلی حدیث زیادہ صحیح ہے اور دوسری اس سے کچھ کم درجہ کی ہے ۔ پھر میں نے امام اسماعیل سے عرض کیا : کیا اس حدیث کی بھی سندیں ہیں ، اور کیا اس کو بصریوں اور کوفیوں نے روایت کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، پھر فرمایا : 




⚘وقد خاب وخسر من لم يكن علي مولاه . ⚘




" اور یقیناً وہ شخص خائب و خاسر ( نامراد و ناکام) ہے جس کے حضرت علی ع مولا نہیں " ۔




سیراعلام النبلاء ، ج 3 ، ص 357، ترجمہ : 2381 ، طبع مکتب العصریہ بیروت 




انتخاب و ترجمہ : سید حسنی الحلبی


 

صحابی رسول اللہ جناب طلحہ کا قاتل مروان





🔴صحابی رسول اللہ جناب طلحہ کا قاتل مروان 🔴




حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : 




خلیفہ بن خیاط نے اپنی تاریخ میں از اسماعیل بن خالد از قیس بن ابو حازم روایت کیا ہے کہ جمل کے دن حضرت طلحہ کے گھٹنے میں تیر پھینکا گیا ، جب اس تیر کو روکتے تو گھٹنا پھول جاتا اور چھوڑتے تو گھٹنا ظاھر ہوجاتا ۔ آپ نے فرمایا : اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ 




ابن عساکر نے متعدد طرق کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جس شخص نے حضرت طلحہ پر تیر پھینکا تھا وہ مروان بن حکم تھا ۔ 




اور ابی القاسم بغوی نے بھی صحیح سند کے ساتھ جارود بن ابی سبرہ سے روایت کیا ہے کہ مروان نے جمل کے دن جب حضرت طلحہ کو دیکھا تو کہنے لگا: آج کے بعد میں قصاص کا مطالبہ نہیں کروں گا ، پھر اس نے تیر پھینکا اور حضرت طلحہ کو قتل کردیا ۔ 




اور یعقوب بن سفیان صحیح سند کے ساتھ قیس بن ابو حازم سے روایت کرتے ہیں کہ مروان بن حکم نے لشکر کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تو کہنے لگا : اس ( طلحہ) نے عثمان کے قتل میں اعانت کی تھی ، پھر تیر پھینک کر آپ کو زخمی کر دیا ، جس سے مسلسل خون جاری رہا حتی کہ آپ وصال فرما گئے ۔ 




اور عبدالحمید بن صالح نے قیس سے اور طبرانی نے یحیی بن سلیمان الجعفی سے وکیع کی اسی سند سے روایت کیا ہے کہ یحیی نے کہا : میں نے مروان بن حکم کو تیر پھینکتے ہوئے دیکھا جو حضرت طلحہ کے گھٹنے میں پیوست ہو گیا تھا ، جس کے باعث مسلسل خون بہتا رہا یہاں تک کہ آپ کی  وفات ہوگئی ۔ یہ واقعہ جمادی الاول 36 ھجری میں ہوا ۔ 




الاصابہ فی تمیز الصحابہ ،ترجمہ : طلحہ ، ص 730 ، طبع المکتبہ العصریہ بیروت 




پیش کش : 




📚مكتبة الامام سيدنا حسن المثنى ( ع)📗




✏اشراف : سید حسنی الحلبی




اھل شام کی محبت معاویہ اور علامہ ذہبی کا تبصرہ

⚘اھل شام کی محبت معاویہ اور علامہ ذہبی کا تبصرہ ⚘



معاویہ کے پیچھے کثیر تعداد میں ایسے لوگ ہوئے جو اس (معاویہ) سے محبت کرتے تھے بلکہ اس کی محبت میں غلو کرتے اور اسے فضیلت دیتے تھے ،اس کا سبب یا تو یہ تھا کہ اس نے ان پر نوازش ، نرمی اور مالی وظیفوں کے ذریعے حکومت کی تھی یا انہوں نے شام میں اس کی محبت پر ہی جنم لیا تھا اور ان کی اولاد نے بھی اسی محبت معاویہ پر پرورش پائی تھی ان محبین معاویہ میں صحابہ کی ایک تھوڑی سی تعداد اور تابعین علماء کی کثیر تعداد شامل تھی انہوں نے معاویہ کے ساتھ مل کر اھل عراق ( مولا علی ع اور ان کی معیت میں دیگر صحابہ کرام ) کے ساتھ جنگ کی تھی ۔ اسی طرح انہوں نے بغض علی ع پر نشورنما پائی ، ہم خواہش نفس سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔




سیر اعلام النبلاء ۔ ج 1۔ ص 1008 ۔ طبع بیروت




کتبہ : سید حسنی الحلبی